امر بالمعروف و نہی عن المنکر

The Moment!

اَلسَّاعَۃ

صبح کا اخبار اٹھایا تو شہ سرخی میں گزشتہ روز پیش آنے والے ہیبت ناک واقعے ہی کا ذکر تھا ۔ اور ہونا بھی چاہئے تھا ۔ کچھ دیگر خبریں بھی اسی واقعے سے متعلق تھیں ، یعنی واقعے کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے خاصی تفصیلی رپورٹنگ کی گئی تھی ۔

تاہم باقی خبریں معمول کے مطابق تھیں۔ یعنی وہی بم دھماکے  ، وہی قتل و غارت ، وہی چوری ڈکیتی اور اغوا کی وارداتیں ، وہی الیکشن کا دنگل اور وہی سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیاں۔ اخبار کے دیگر صفحات بھی معمول کے مطابق ہی تھے ۔ وہی ہالی وڈ ، بالی وڈ اور لالی وڈ کی خبریں ۔ وہی فلموں ڈراموں پر عمیق تبصرے۔ وہی نئی فلموں کے پوسٹرز اور وہی فلمی اداکاراؤں کی نیم برہنہ تصاویر ۔ میگزین کھولا تو وہی فیشن اور ڈریس ڈیزائننگ کے نام پر عریانی کے مناظر ۔

اسی اثنا میں گلی میں بچوں کی اسکول وین آنی شروع ہو گئی تھیں ۔ جن میں سے کسی میں نعتوں کے نام پر دھمال ڈالی جا رہی تھی تو کہیں فلمی گانے بآواز بلند بج رہے تھے ۔ دفتر جانے کے لئے سڑک پر آئے تو وہی روزانہ کی ہنگامہ آرائی ۔ آگے نکل جانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی اور جھگڑے ۔ گالی گلوچ ۔ ہاتھا پائی  کے مناظر ۔ قریب سے ایک بس گزری تو اس میں بھی اونچی آواز میں گانے بج رہے تھے ۔ پیچھے ایک بائیک پر ایک صاحب ایک خاتون کے ہمراہ رواں دواں تھے جو لباس پہنے ہوئے ہونے کے باوجود بے لباسی کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ بس اسٹاپ پر بھی دفتر اور اسکول جانے والی خواتین کی بے پردگی اور فیشن زدگی حسب معمول تھی ۔ اور اس “دعوت نظارہ “پر لبیک کہنے والے راہ چلتے ہر عمر کے مردوں کی رال بھی روزانہ کی طرح ٹپک رہی تھی ۔ سڑک کے کنارے لگے دیو ہیکل سائن بورڈز اور ہورڈنگز پر  حیا باختگی کے مناظر بھی جوں کے توں تھے ۔

دفتر پہنچے تو وہاں بھی وہی بے تکے اور بے ہودہ تبصرے ، تکیہ کلام کے طور پر گالیوں کا بے محابہ استعمال ۔ اسی دوران ایک انشورنس کمپنی کا ایجنٹ اپنی کمپنی کی دنیا بنانے یعنی سودی بزنس بڑھانے کے لئے گاہک گھیرنے آن پہنچا اور یوں اپنے ساتھ ساتھ گاہکوں کی بھی عاقبت خراب کرنے کی تگ و دو کرنے لگا۔ چائے پینے کے لئے کوئٹہ ہوٹل پر بیٹھے تو وہاں بھی ہوٹل کے مالک نے اپنے لئے “صدقہ جاریہ ” کا اہتمام کیا ہوا تھا یعنی جہازی سائز کے ٹی وی پر ہندوستانی فلم چل رہی تھی جس میں ناچ گانے کے علاوہ “بولڈ ” مناظر بھی رواں دواں تھے ۔ اطراف میں بیٹھے لوگوں کا بھی موضوع گفتگو وہی سیاست اور اس بحث کے دوران سیاستدانوں کے بارے میں وہی بد کلامیاں ، گھٹیا تبصرے …. مذاق کے نام پر بے ہودہ لطیفے اور فحش اشارے ۔

ڈیوٹی کے دوران ایک اسکول کا وزٹ کیا  تواسکول کے پلے ایریا میں ایک میراثی یعنی میوزک ٹیچر معصوم بچوں کو سُر سنگیت کے رموز و اوقاف سکھانے میں مصروف تھا۔ اور وہاں موجود استانیوں کی فیشن زدگی اور میک اپ کو دیکھ کر لگا کہ گویا ٹیچنگ نہیں ماڈلنگ کے لئے آئی ہوئی ہیں ۔ ایک اسپتال کا وزٹ کیا تو وہاں استقبالیہ کاؤنٹر پر بھی ایسی ہی مخلوق سے پالا پڑا …بلکہ وہاں تو خواتین کا ساتھ کام کرنے والے مردوں سے ہنسی مذاق دیکھ کر یہی محسوس ہوا کہ یہ بھی معمول کی بات ہے۔ قریب ہی بہت سارے بینک تھے جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جنگ روزانہ کی طرح پوری شدت سے جاری تھی۔ ایک دوکان پر کچھ خریدنے کے لئے پہنچے تو دیکھا کہ حضرت نے موبائل فون کو کمپیوٹر کے اسپیکرز سے کنکٹ کر کے اپنے ذوق موسیقی کی تسکین کی “جگاڑ “کر رکھی تھی ۔ اس کو ہم نے گزشتہ کل کا واقعہ یاد دلایا تو سنتے وقت اس کے چہرے کی ناگواری و بیزاری دیدنی تھی ۔

ظہر کا وقت ہوا تو مسجد میں نماز پڑھنے گئے ۔ وہاں نمازیوں کی وہی مختصر سی تعداد ۔ پھر حسب معمول دوران نماز موبائل فون پر بجتی ہوئی موسیقی کی دھنیں اور نغمے ۔ نماز کے بعد مسجد سے آگے بڑھے تو گلی میں گول گپے والا احمد رشدی کی روح کو ” ایصال ثواب”  پہنچاتا اور اہل محلہ کی “دعائیں” لیتا ہوا جا رہا تھا ۔ پیچھے پیچھے والز آئس کریم والا اپنی سائیکل نما ریڑھی پر مخصوص دھن بجاتا ہوا اس “کار خیر “میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا ۔ قریبی اسکول کی چھٹی ہو چکی تھی  اور وہاں بھی اسی نوعیت کے مناظر تھے ۔

شام کو پارک میں جانا ہوا تو وہ بھی حسب معمول “ڈیٹ پوائنٹ “بنا ہوا تھا۔ پارک کے مختلف گوشوں میں لڑکے لڑکیاں دنیا و مافیہا سے بے نیاز عہد و پیمان میں مصروف تھے بلکہ کہیں کہیں تو بات “کافی آگے “بڑھ چکی تھی ۔ جاگنگ ٹریک پر دوڑتے ہوئے مردوں نے کانوں پر حسب معمول ہیڈ فون لگائے ہوئے تھے ۔ کچھ خواتین بھی وزن کم کرنے یا خود کو فٹ رکھنے کی جستجو میں واک کر رہی تھیں  اور روزانہ کی طرح اطراف میں بیٹھے حضرات کا سانس پھلائے دے  رہی تھیں۔ رات کو پڑوس میں “مہندی “کی تقریب تھی ۔ وہاں بھی اس نوعیت کی تقریبات کی طرح گویا “پریاں “اتری ہوئی تھیں ۔  محفل حسب معمول مخلوط تھی جس میں رقص و موسیقی کا انتظام “بصد اہتمام” نظر آیا ۔

 قارئین ! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی کیا اوٹ پٹانگ ہانکے جا رہے ہو۔ صاف صاف کہو کیا کہنا ہے ؟

 تو جناب !عرض یہ کرنا تھا کہ

“ایک دن قبل  ہمارے شہر میں زلزلہ آیا تھا ۔ “

اللہ نے فضل فرمایا کہ اتنی بڑی آفت بغیر کوئی نقصان پہنچائے ٹال دی گئی …. لیکن اگلے دن سب کچھ ویسے کا ویسے ہی تھا … سب کے معمولات جوں کے توں تھے… جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ یہ زلزلہ بتا کر نہیں آیا تھا …. اور ملک الموت بھی آنے سے پہلے کال یا ایس ایم ایس نہیں کرے گا….  نہ  ہی قیامت اطلاع دے کر آئے  گی ۔ اور یہ  بھی یاد رہے کہ

مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَت قَیَامَتُہ‘

ترجمہ: جو مر گیا اس کی قیامت آ گئی ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہماری آخری گھڑی آئے …. تو ہم اس وقت کوئی ایسا کام کر رہے ہوں کہ …. خدانخواستہ ہمارا ایمان پہ خاتمہ بھی شک میں پڑ جائے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ(اٰل عمران۔ 102 )

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔

Behaviors & Attitudes, امر بالمعروف و نہی عن المنکر

Daur Aaya Hy Be-Hijabi Ka

دَور آیا ہے بے حجابی کا

از ابو شہیر

لفظ “اشتہار “بھی عجیب ہے ! ماخذ اس کا شہرت اور مقصد اس کا تشہیر ہے ، لیکن اگر اس کا آخری حرف حذف کر دیا جائے ، تو اس کی فی زمانہ مقصدیت واضح ہو جاتی ہے ۔ سو آجکل یہ اشتہارات ہر قسم کی “اشتہا ” کو بڑھانے کے لئے محرک یا انگریزی اصطلاح کے مطابق appetizer کا کام دے رہے ہیں۔ اب چاہے وہ مصالحہ جات ہوں یا مربہ جات ، ماکولات و مشروبات ہوں یا ملبوسات …… یہ تمام اشتہارات بنتے ہیں باعثِ خللِ احساسات و محسوسات… پھر تمام اشتہارات میں مستورات ہی مستورات … اور اس کی پھر نت نئی تاویلات ….اور ہم جیسی سوچ رکھنے والے دخل در نا معقولات ۔ فی الحال تو اتنے ہی قافیوں پر اکتفا کیجئے ۔ (لفظ مستورات کو یہاں خواتین کے معنوں میں پڑھا جائے ۔ )

گرمی کیا آئی کہ لان بنانے والوں نے کارپٹ بمباری carpet bombing کی مانند اپنی مصنوعات کی تشہیری مہم کا آغاز کرتے ہوئے اشتہارات کی بھرمار کر دی ہے ۔ ٹی وی اور اخبارات پر ہی بس نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ پورے شہر میں جہازی سائز کے سائن بورڈز بھی آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ جن  پر اس قسم کے جملے دیکھے جا سکتے ہیں۔

Spring Summer Collection… Available from 5th March at all leading stores

Fresh Arrivals … Launching on 22nd March, exclusively at THE MALL, CLIFTON

اور پھر جس طرح جیسے گھڑ دوڑ یا کار ریلی میں فائر کے ہوتے ہی گھوڑے بگٹٹ دوڑتے ہیں اور گاڑیاں زووووں کرتی آگے بڑھتی ہیں، اسی طرح خواتین مقررہ تاریخ پر شاپنگ سینٹرز ، کپڑے کی دوکانوں اور فیکٹری آؤٹ لیٹس outlets  کی جانب دوڑتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دوست جو ابھی حال ہی میں لاہور سے ہو کر آئے ہیں، وہاں کے بازار کا حال بتانے لگے کہ “ایک اوسط درجہ کی کپڑے کی دوکان پر بھی تقریباً سارے ہی معروف برانڈز کی لان کا نیا اسٹاک دستیاب تھا جن کے حصول کے لئے خواتین باؤلی ہوئی جا رہی تھیں ۔ دوکان میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔ اور چار چار پانچ پانچ ہزار کے سوٹ دھڑا دھڑ بک رہے تھے ۔ “

صرف لاہور ہی کا کیا ذکر ، ہمارا شہر کون سا پیچھے ہے ۔  بتائیے !چار پانچ ہزار روپے کا سوٹ ، وہ بھی لان کا ؟ اور ابھی پانچ سات سو روپے سلائی  بھی جائے گی۔ کیا ہو گیا ہے ان خواتین کی عقلوں کو؟ اس سے کم میں یا اتنے میں تو پیور شیفون کے کڑھائی والے سوٹ یا بنارسی جوڑے مل جاتے ہیں جو کہ اچھے خاصے زرق برق ، دیدہ زیب اور پارٹی ویئر ٹائپ ہوتے ہیں۔ مانا کہ تقریبات کے ملبوسات کی نوعیت مختلف ہوا کرتی ہے لیکن کیا  اب casual wearing پر بھی اس قدر پیسہ صرف کیا جائے گا ؟ ایک تھری پیس لیڈیز سوٹ میں ساڑھے سات گز کپڑے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب چار پانچ ہزار کو ساڑھے سات سے تقسیم کر کے ذرا حساب تو لگائیے کہ کیا بھاؤ پڑ گیا ایک گز کپڑا ؟

آجکل تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے پاکستان میں زندگی کا مقصد یا تو لان بنانا ہو گیا ہے یا لان پہننا ، باقی لوگ تو ملک میں فالتو ہیں۔ یہ سب کمال ہے اس مارکیٹنگ مہم کا ، جس کا اخلاقیات سے عاری نصب العین ہے …..  “جو دِکھتا ہے ، وہ بکتا ہے ” ۔ سو اس مہم کے شاہکار آپ کو ہر چھوٹی بڑی شاہراہ ، اخبارات اور رسائل ، الیکٹرانک میڈیا ، فیشن میگزین ، دوکانوں، بازاروں …..  غرض یہ کہ ہر گلی ہر نکڑ ہر قدم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص شارع فیصل تو ہورڈنگز کی بھرمار سے اس وقت “شارع فیشن ” کا منظر پیش کر رہی ہے ۔

لیکن جناب ! یہ بھی حقیقت ہے کہ تالی تو دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ۔ تو ذرا ان خواتین کا طرز عمل بھی ملاحظہ ہو…  جو تشہیری مہم کا حصہ ہیں۔ جی ہاں ! ہم ماڈل گرلز ہی کی بات کر رہے ہیں ۔ اوہ سوری! برانڈ ایمبیسیڈرز brand ambassadors  … ماڈل گرل تو گھٹیا ، فرسودہ اور بازاری قسم کا لفظ ہے ۔ ایک جانب جولاہوں …  سوری … ٹیکسٹائل مل والوں کی کوشش ہے کہ لان کی فروخت کے ریکارڈ قائم کر لئے جائیں ، تو دوسری طرف بڑی بڑی ہورڈنگز پر حوا کی یہ بیٹیاں  … المعروف بہ برانڈ ایمبیسیڈرز …  بے حیائی کے ریکارڈ قائم کرتی نظر آ رہی ہیں۔کپڑا بنانے اور پہننے کا مقصد ہے ستر پوشی …  لیکن یہاں ماڈلنگ کے نام پر ستر فروشی کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ واہ صاحب واہ ! ساڑھے سات گز کپڑے کا سوٹ زیب تن کرنے کے باوجود ماڈل خاتون برہنہ نظر آ رہی ہے۔

حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ان ماڈل خواتین کو کسی مجبوری کے تحت پیسہ کمانے کے لئے گھر سے نکلنا پڑا ہو گا تو پھر پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ انسان پیسہ کماتا کیوں ہے؟ انسان کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی ، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا ، سر چھپانے کے لئے مکان ، سفر  کے لئے سواری اور بیماری میں دوا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے کمانے کے لئے وہ کوئی نہ کوئی پیشہ یا شعبہ اختیار کرتا ہے ۔ کونسا پیشہ ؟ یہ فرد کی اپنی صوابدید پر ہے ۔

بہت سی با حیا خواتین ، باوجود شدید مجبوری کے بھی ، گھر سے باہر نکلنے کے بجائے گھر ہی میں رہتے ہوئے سلائی کڑھائی کے ذریعے اپنی گزر اوقات کا انتظام کر لیتی ہیں … بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلتی بھی ہیں تو وقار کے ساتھ ، حدود کا پاس رکھتے ہوئے … تاہم فی زمانہ ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں ، جو ماڈلنگ کا پیشہ اپنا کر شمع محفل اور زینت بازار بننے کا انتخاب کرتی ہیں ۔ کتنا عجیب ہے ناں ان ماڈل خواتین کا یہ فلسفہ …. ستر پوشی کے لئے ستر فروشی ۔ اللہ بچائے عقل کے خبط ہونے سے ۔

یہ معاملہ صرف لان کے اشتہارات تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ بال صفا کریموں ، سینیٹری نیپکنز اور زنانہ انڈر گارمنٹس جیسی اشیاء کی بھی دیو ہیکل سائن بورڈز پر  (نیز اخبارات و رسائل میں بھی )برملا اور بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے ۔ ایک ٹیم ورک کے ساتھ پورے شہر کو بے حیائی کے مناظر سے سجا دیا گیا ہے ۔ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی بشمول مصنوعات بنانے والے ، مارکیٹنگ کرنے والے ، بے حیائی کے پوز دیتی ماڈل گرلز اور ان کی منظر کشی کرنے والے فوٹو گرافرز ، پینافلیکس پرنٹرز ، ان پینافلیکس کو ہورڈنگز پر نصب کرنے والے مزدور قرآن پاک کی یہ وارننگ یاد رکھیں ۔۔۔

  إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ

یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کےلئے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب  ہے ۔ (سورۃ النور ۔ ۱۹)

آخر میں ہم ماڈل خواتین کی توجہ اس امر کی جانب دلاتے چلیں کہ ذرا سوچئے ! مصنوعات کی آڑ میں کہیں آپ کی نسوانیت کو تو نہیں بیچا جا رہا ؟ ساتھ ہی ان ماڈل خواتین کے گھر کے مردوں …. اور ان کو زینت بازار بنانے والے مردوں سے یہ گزارش ہے کہ اللہ کے بندو!  اشتہار کو اپنی مصنوعات کی شہرت تک ہی محدود رکھو، کم از کم شہوت کا ذریعہ تو نہ بناؤ ۔تم لوگ جس طرح بے حیائی کے مناظر کو ہورڈنگز پر سجا کر ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے ، معاشرے کو ایک خاص سمت میں ہانکنے یعنی ممنوعات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی ابلیسی کوشش میں ایک دوسر ے کی معاونت کر رہے ہو، تو اس قوم کے با حیا افراد اس کھلی فحاشی سے تنگ آکر وہی سوال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو حضرت لوط علیہ السلام  نے اپنی قوم کے بے حیا مردوں سے  کیا تھا۔…

کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں ہے؟…

اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُل‘’ رَّشِیْد‘’؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (سورۃ ھود۔ 78)