Emaan, Islam, JIHAD, مجاہدین اسلام, مسلم کمانڈرز, اسلام, جہاد

ہمارے ہیروز

ہمارے ہیروز

ترکی ڈرامہ ارتغرل کی پاکستان میں نمائش کے بعد ایک نئی بحث یہ چھڑ گئی ہے کہ ہمیں غیر ملکی ہیروز کی بجائے اپنے مقامی ہیروز پر ڈرامے اور فلمیں بنانی چاہئیں۔

جبکہ اپنا قومی ہیرو اقبال کہتا ہے۔۔۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے، وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

اور اپنے اسی قومی ہیرو کا یہ بھی کہنا ہے

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے، سارا جہاں ہمارا

مسئلہ یہ ہے کہ صرف اقبال ہی نہیں اپنے ہیرو حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام ہو یا حالی کی مسدس مد و جزر اسلام۔۔۔ سب کی تان ترکی سے براستہ فارس، روم، اندلس و بغداد ہوتی ہوئی سرزمین حجاز پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے ۔ بیچ میں مراکش اور افغانستان کے پڑاؤ بھی ملتے ہیں۔

مسلمانوں کی اپنی ایک الگ شناخت تہذیب اور تاریخ ہے۔ جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے۔ ہماری تاریخ عہد نبوی ﷺ سے شروع ہوتی ہے۔ ہمارے ابتدائی ہیروز میں خلفائے راشدین و مھدیین کے علاوہ سید الشھداء حمزہ بن عبد المطلب سعد بن ابی وقاص خالد بن ولید ابوعبیدة ابن الجراح عمرو بن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے جلیل القدر نام آتے ہیں۔

اگلی نسل میں ہمیں فاتح ترکستان قتیبہ بن مسلم باہلیؒ ایسا جرنیل نظر آتا ہے جس نے سمرقند بخارا خوارزم بلخ کاشغر اور کابل ایسے شہر فتح کر کے اسلامی سلطنت کی جھولی میں ڈال دیئے۔

اس سے آگے ہمیں فاتح افریقہ موسی بن نُصیرؒ ، فاتح اندلس طارق بن زیادؒ اور فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ ایسے زبردست کمانڈرز نظر آتے ہیں جن کی فتوحات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

تین براعظم پر مشتمل وسیع اسلامی سلطنت کے فرمانروا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو بھی ہم اپنا ہی ہیرو گردانتے ہیں اور سلطنت عباسیہ کے ہارون الرشید کو بھی۔ اور ہسپانیہ میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے والے عبدالرحمان الداخل کو بھی۔

زلاقہ کے میدان میں الفانسو ششم کے لشکر کو شکست دے کر لڑکھڑاتی لرزتی سلطنت ہسپانیہ کو مزید تین سو سالہ زندگی دینے والا مرابطین کا بربر کمانڈر یوسف بن تاشفینؒ بھی ہمارا ہیرو ہے۔ اور صلیبیوں سے لڑنے والا عماد الدین زنگیؒ بھی۔

آگے عماد الدین زنگی کا خوش نصیب بیٹا۔۔۔ روضہ رسول و جسد اطہر رسول ﷺ کا محافظ۔۔۔ نور الدین زنگیؒ بھی تو ہمارا ہی ہیرو ہے۔۔۔

اور نور الدین زنگیؒ سے آگے ان کا ایک مشہور کمانڈر۔۔۔ فاتح بیت المقدس۔۔۔ صلاح الدین ایوبی۔ نام ہی کافی ہے۔۔۔ ہے ناں؟

اور وہ ہندوستان پر 17 حملے کرنے والا اور سومنات پر حملہ کر کے تاریخ میں خود کو بطور بت شکن امر کرنے والا محمود غزنوی بھی تو ہمارا ہی ہیرو ہے۔ اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو کچلنے والا احمد شاہ ابدالی بھی۔ اور شہاب الدین غوری بھی۔ (ہمارے دو میزائل بھی موخر الذکر دو ہیروز کے ناموں سے موسوم ہیں)

اور تاتاریوں سے ٹکرانے والا سلطان جلال الدین خوارزم شاہ جس کی شجاعت و دلیری و بہادری سے بیگانے کیا اپنے بھی خائف رہے اور اپنی حکومتوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے اس کی نصرت سے گریزاں رہے۔ آہ ایسا نادر ہیرا بلکہ ہیرو اپنوں کی جفا سے دلبرداشتہ ہو کر گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔

اور وہ مملوک کمانڈر رکن الدین بیبرس ؒ (جو کبھی غلام کی حیثیت سے فروخت ہوا تھا) جس نے عین جالوت کے مقام پر اس وقت منگولوں کے سیلاب کے آگے بند باندھا جب وہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے اور مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنا رہے تھے۔ عین جالوت کی اس لڑائی میں نہ صرف یہ تصور ٹوٹا کہ منگول ناقابل شکست ہیں بلکہ مسلمان بھی اپنی سیاسی حیثیت دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ رکن الدین بیبرس بھی تو ہمارا ہی ہیرو ہے۔

سمرقند و بخارا اور اندلس افریقا مراکش اور ہند سے اور تاتاریوں اور صلیبیوں سب کی بات سن لی آپ نے۔۔۔

اب آئیے قسطنطنیہ تک۔

آج کا ترکی۔۔۔ ماضی کا قسطنطنیہ

constantinople

 مسلمان سات سو سال جسے فتح کرنے کا خواب دیکھتے رہے۔ مسلمانوں کے سات سو سالہ خواب کو تعبیر بخشنے والا، اور اس شہر کی تسخیر کا محیر العقل کارنامہ سر انجام دینے والا فاتح۔۔۔ سلطان محمد فاتح۔ یہ بھی تو ہمارا ہیرو ہے۔

غیر منقسم ہندوستان سے ہمارے پاس سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید ایسے ابطال جلیل ہیں۔ ان کے علاوہ ٹیپو سلطان شہید ایسا عظیم سپاہی جس نے انگریز افواج کو ناکوں چنے چبوا دیئے، جس نے اپنا ہی قول ثابت کر دکھایا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، جس کے ساتھ غداری نہ ہوتی تو برصغیر کا نقشہ جانے کیا ہوتا۔

مقامی ہیروز میں نشان حیدر پانے والے فوجیوں پر تو ڈرامے پہلے ہی بنائے جا چکے۔ سو اب اگر درج بالا تمام ہیروز کو غیر ملکی کی فہرست میں ڈال دیا جائے تو مقامی ہیرو فقط ایک ہی بچتا ہے ہمارے پاس۔۔۔ دانش۔