Islam, Lailatul Qadr, Ramadhan, لیلۃ القدر, یوم آخرت, امر بالمعروف و نہی عن المنکر, حساب کتاب, رمضان المبارک, علم دین

Lailatul-Qadr

لیلۃ القدر

ابو شہیر

رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو چکا تھا ۔ عشرہ نجات ۔۔۔ جہنم سے آزادی کا عشرہ۔ صلوٰۃ التراویح میں قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کی تلاوت جاری تھی۔ سورۃ محمد کی آیت نے اسے جھنجھوڑا۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا

بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے )دلوں پر قفل لگ گئے ہیں؟

آگے پھر سورۃ الحجرات شروع ہوئی ، یہاں تک کہ قاری صاحب نے اس سورۃ مبارکہ کی آخری آیت تلاوت فرمائی۔۔۔

اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض۔۔۔

بے شک اللہ تعالیٰ زمین آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔

گزشتہ شب اعتکاف میں بیٹھے ساتھیوں کے درمیان یہ مذاکرہ چل نکلا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب کیا ہے؟ سب ساتھیوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ خلاصہ یہ تھا کہ اللہ علیم ہے ، حکیم ہے، عظیم ہے … سب سے زیادہ علم والا ، حکمت والا، قدرت والا، طاقت والا، بصارت و بصیرت والا… کوئی بھی چیز اس کی قدرت اور اس کے علم سے باہر نہیں۔ بڑی نافع گفتگو رہی تھی۔ ایمان تازہ ہو گیا ۔ تو اس پس منظر میں مذکورہ بالا آیت سن کر اس کے دل میں اپنے رب کی عظمت مزید قوی ہوئی کہ کیسا زبردست ہے وہ رب کہ سب کچھ جانتا ہے! وہ بھی …. جو ہمیں نظر آرہا ہے یا جو ہمارے علم میں ہے ، اور وہ بھی… جو ہماری نگاہوں سے ہی نہیں ، ہمارے وہم و گمان سے بھی اوجھل ہے۔ یا اللہ ! تجھ سا نہ کوئی ہے نہ ہو سکتاہے ۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ ۔

دفعتاً اسے ایک جھرجھری سی آئی! اللہ تعالیٰ تو اس کے بارے میں بھی سب کچھ جانتا ہے ۔ اس کا اگلا پچھلا سب اس رب کے علم میں ہے۔ اس کی نافرمانیاں ! اس کی سرکشیاں! اس کے جرائم ! اس کی بغاوتیں! اس کی للکاریں !  کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں۔ اور اس کا انجام … وہ علام الغیوب تو اس کا بھی علم رکھتا ہے۔ “اے اللہ! اے میرے رب! بے شک تو جانتا ہے کہ تیرے اس بندے کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ تو جانتا ہے کہ آخرت میں میرے لئے کیا ہے ؟ خدانخواستہ جہنم ؟ ہلاکت؟ تباہی و بربادی؟ انگارے؟ تیرا غیظ و غضب؟ ” بس اس خیال کا آنا تھا کہ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آگے کیا پڑھا گیا ، اسے کچھ یاد نہیں ۔ بس اتنا اسے یاد ہے کہ اس کی گھگھی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔ اور دل ہی دل میں

اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا ۔۔۔

اللھم اغفر لنا و ارحمنا و اعتق رقابنا من النار ۔۔۔

کی گردان چل رہی تھی ۔ اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ، ہمیں معاف فرما دے۔ اے اللہ ! ہماری مغفرت فرما! ہم پر رحم فرما! اور ہمیں جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرما۔ آمین۔

روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد مسجد کے پیش امام صاحب ایک مختصر سی حدیث مبارکہ اور اس کا ترجمہ و تشریح بیان فرماتے ۔ حسب معمول اس روز بھی ایک حدیث مبارکہ بیان فرمائی۔ بشارت نہ کہئے تو اور کیا کہئے ؟ زبان تو بے شک امام صاحب کی تھی لیکن کلام کس کا تھا؟ الصادق و المصدق ﷺ کا! البشیر ﷺ کا! یقیناً آپ ﷺ کُلُّ نفسٍ ذآئقَۃُ المَوت کے اٹل قانون کے تحت دار لفنا سے دار البقا کو ہجرت فرما گئے لیکن ۔۔۔ لاریب کہ آپ ﷺ کا کلام آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک کے لئے زندہ رہے گا۔ بشارت نہ کہئے تو اور کیا کہئے ؟ کہ حالات و واقعات کی ترتیب اور ٹائمنگ ہی کچھ ایسی تھی ۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ۔۔۔ جہنم سے نجات کا عشرہ ۔۔۔ رحمت الٰہی جوش میں ہے ۔ مغفرت کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ بخشش کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ایک ایک رات میں ہزاروں کو جہنم سے آزادی کے پروانے عطا ہو رہے ہیں۔ اعلانات ہو رہے ہیں ۔۔۔

اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃ ۔۔۔

بے شک تمہارا رب بڑی بخشش والا ہے۔

ہے کوئی طلبگار؟

اعلانات ہو رہے ہیں۔۔۔

ھل مِن تائِبٍ فَاَتوبَ عَلیہ ؟

ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کروں؟

ھل مِن مُستَغفِراٍ فَاَغفِرَ لَہ’ ؟

ہے کوئی مغفرت کا طلبگار کہ اسے بخش دوں؟

رات کی تاریکی میں ایک بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں لبوں کو جنبش دیئے بغیر سرگوشیاں کرتا ہے ، دل ہی دل میں راز و نیاز کرتا ہے ، اور وہ ذات جو

یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر

ہے ۔۔۔ یعنی آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے، سب سن لیتی ہے اور صبح کو یہ مژدہ سنائی دے جاتا ہے ۔ امام صاحب نے حدیث مبارکہ پڑھی ۔ اس کے چشم تصور میں ایک منظر ابھرا۔ خدا کرے کہ اس جسارت کو گستاخی و بے ادبی پر محمول نہ کیا جائے ۔۔۔اس کے چشم تصور میں ایک منظر ابھرا۔۔۔ کہ جیسے اس رحیم و کریم ذات نے اپنے ایک گناہگار بندے کی آہ و بکا کو سند قبولیت عطا فرماتے ہوئے اپنے نبی ﷺ سے کہا ہو کہ اے میرے محبوب! میرے بندوں کو اپنی زبان مبارک سے خوشخبری سنا دیجئے کہ ۔۔۔

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہ’

یعنی گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا۔

بھلا کیا نام دیا جائے اس شب کو جس میں ایک بندۂ عاصی کی ایسی قدر افزائی ہوئی ۔۔۔

قدر کی رات؟

لیلۃ القدر؟