طوفان آتا کیسے ہے
ان دنوں ‘کیار’ نامی سمندری طوفان نے بحیرہ عرب کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق ‘کیار’ بحیرہ عرب کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا اور سال 2019 میں دنیا بھر میں آنے والا سب سے شدید سمندری طوفان ہے۔
گزشتہ شب ایک ٹی وی رپورٹ میں کراچی کے ساحلی علاقے ہاکس بے کا منظر دکھایا گیا کہ کیسے سمندر کا پانی سڑک تک آ رہا ہے۔ دوسری طرف بہت سے منچلے بھی وہاں موجود تھے۔ رپورٹر نے پوچھا آپ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں؟ جواب آیا: ہم یہ دیکھنے آئے ہیں کہ طوفان آتا کیسے ہے۔۔۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں تو ہوا بھی تیز چلتی تو آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر ڈر محسوس ہوتا تھا۔ اس حدیث کی تشریح یہ بیان کی جاتی ہے کہ قوم عاد پرآندھی کا عذاب آیا تھا۔ اس لیے آندھی آنے پر آپ ﷺ عذاب الٰہی کا تصور فرما کر گھبرا جاتے۔
ایک اور واقعہ حجة الوداع کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ مزدلفہ میں رات بسر کرنے کے بعد 10 ذی الحجة کی صبح واپس منیٰ کو روانہ ہوئے۔ منٰی کی راہ میں جب وادی محسر کے دامن میں پہنچے تو اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی۔ واضح رہے کہ وادی محسر وہ مقام ہے جہاں رب کعبہ نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ابابیلوں کے ذریعہ کنکریاں برسا کر نیست و نابود کر دیا۔
ایسے ہی قرآن پاک میں سورة الاحقاف آیت 22 تا 25 میں حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا قصہ بیان ہوا۔ قوم عاد نے ہود علیہ السلام کی نصیحتوں پر کان دھرنے کی بجائے الٹا اپنے نبی کو چیلنج کر دیا۔۔۔
(اے ہودؑ) اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا تم وعده کرتے ہو اسے ہم پر لے آؤ(22) (حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وه تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو (23) پھر جب انہوں (قوم عاد) نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے تو کہنے لگے، یہ ابر ہم پر برسنے واﻻ ہے، (ہود علیہ السلام نے کہا: نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وه (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے (24) جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر دے گی، پس وه ایسے ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔
زلزلے سیلاب آندھی طوفان یہ سب قدرتی آفات کی مختلف شکلیں ہیں جن سے بعض قوموں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ 2004 میں انڈونیشیاء میں سونامی آیا تھا۔ بحر ہند میں 80 تا 100 فٹ بلند لہریں بنیں۔ یعنی 8 تا 10 منزلہ عمارت جتنی بلند لہریں۔ جو لہر بند آچے نامی شہر کے ساحل سے ٹکرائی وہ تیس فٹ بلند بتائی جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی تھا گویا سمندر ساحل پر امڈ آیا۔ سوا دو لاکھ انسان لقمہ اجل بنے۔ بعض منچلے اس وقت بھی تصویر کشی میں مشغول تھے۔
اللہ نہ کرے کہ یہ طوفان عذاب الہی ہو۔۔۔ قدرتی آفت بہرحال ہے۔ یہ وقت اٹھکھیلیاں کرنے کا نہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کا ہے۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے۔ ہر چیز مذاق نہیں ہوتی۔ خاص کر سمندری طوفان تو بالکل بھی مذاق نہیں۔
#Kyaar