Behaviors & Attitudes, امر بالمعروف و نہی عن المنکر

Ajnabi Shanasa

اجنبی شناسا

از ابو شہیر

وہ کون ہے ؟ کیا نام ہے ؟ کیا کرتاہے ؟ کہاں رہتا ہے ؟ کہاں سے آتا ہے ؟ کہاں جاتا ہے ؟ یہ سب میں نہیں جانتا ، نہ ہی کبھی جاننے کی کوشش کی۔۔۔ البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی اپنے کسی مرحوم عزیز کی تدفین میں شرکت کے لئے قبرستان جانا ہوا ، تو کم و بیش ہر مرتبہ ہی اسے وہاں موجود پایا ۔ آپ نے بھی اسے یقیناً دیکھا ہو گا ۔ میں تو اکثر اسے دیکھتا ہوں ۔ کبھی سخی حسن قبرستان میں ، کبھی محمد شاہ قبرستان  میں ، کبھی پاپوش نگر قبرستان میں۔۔۔۔

ابھی میت کو قبر میں اتارا جا رہا ہوتا ہے کہ اچانک وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار آن پہنچتا ہے ۔۔۔ مٹیالی سی سفید داڑھی ، سر پر ٹوپی ، کاندھے پر رومال ، پرانی سی موٹرسائیکل ۔ ۔۔ وہ آ کر خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہو جاتاہے ۔ پھر جونہی قبر پر مٹی ڈالی جاتی ہے تو یہ “اجنبی شناسا ” ایک جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اپنی پاٹ دار آواز میں میت کے لواحقین کو مخاطب کر کے کہتا ہے :

“السلام علیکم ۔

بھائیو! دو منٹ کے لئے ذرا میری بات سن لیں۔ پورے ملک میں لوگ قبرستانوں میں اللہ کا نام ، نبی ﷺ کا کلمہ ، درود شریف اور قرآنی آیات پتھروں پر لکھ لکھ کر قبروں پر لگا رہے ہیں۔ لوگ ان قبروں پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ ان پر چل کر آتے ہیں ۔ قبریں ٹوٹ جاتی ہیں تو پھر یہ قرآنی آیات کہاں پڑی ہوتی ہیں؟ کوڑے کے ڈھیر میں ۔ (پھر وہ پاس کی کسی قبر یا وہاں پڑی کوئی بوسیدہ سی سل ہاتھ میں اٹھا کر لوگوں سے کہتا ہے ) یہ دیکھیں یہ ساتھ والی قبر کا کیا حال ہے ۔ وہ دیکھیں آپ ۔۔۔ اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔۔۔ وہ کتبہ پڑا ہے جس پر قرآنی آیات لکھی ہیں ۔۔۔ کیسی بے حرمتی ہو رہی ہے۔۔۔ قبرستانوں میں کتے آتے ہیں ۔ کتا کہاں پیشاب کرتا ہے ؟ اونچی جگہ پر ۔ کتا ہمیشہ قبر کے کتبے پر پیشاب کرتا ہے ۔ اور وہاں ہم نے قرآنی آیات لکھوا رکھی ہوتی ہیں۔ آج پورے ملک میں اللہ کے نام ، نبی کے کلمہ اور درود شریف و قرآنی آیات کی بے حرمتی ہو رہی ہے ۔۔۔ گھروں کی دیواروں پر ، چوراہوں پہ اللہ کے ناموں کی تختیاں لگا رکھی ہیں اور پانی کہاں جا رہا ہے ۔۔۔ ؟گندے گٹروں میں۔۔۔ یہ گہوارے میں چاد رپڑی ہے ۔۔۔ اس پر کیا لکھا ہے؟ کلمہ ، آیت الکرسی ، قل شریف ، درود شریف ۔۔۔ لوگ میت کے اوپر ڈال کر لاتے ہیں اور میت کو دفناتے وقت یہ چادر لپیٹ کر گہوارے میں پھینک دیتے ہیں ۔۔۔ آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ یہ چادر کیسے پڑی ہے ۔۔۔ خدارا ! اللہ رسول کے نام اور قرآنی آیات کا احترام کریں۔۔۔ انہیں نہ قبروں پر لکھوائیں ، نہ دیواروں پہ نہ اخباروں میں ۔۔۔ کل ہم نے بھی یہیں انہی قبروں میں آنا ہے ۔۔۔ وہاں اللہ کو جواب دینا ہے ۔۔۔ اپنے پیاروں کو وصیت کریں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری قبر پر یہ سب کچھ نہ لکھوایا جائے۔۔۔ ورنہ کل کہیں ہمیں عذاب نہ بھگتنا پڑے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ اس کے درجات بلند فرمائے ۔ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔ جزاک اللہ ۔ السلام علیکم “

ایک مشینی انداز میں وہ بمشکل دو منٹ میں اپنی یہ تقریر ، جو اسے یقیناً ازبر ہو چکی ہے (اور راقم کو بھی تقریباً یاد ہو گئی ہے) ، مکمل کرتا ہے ۔۔۔ جا کر دوبارہ موٹر سائیکل پر سوار ہوتا ہے، رومال کاندھے پر ڈالتا ہے ، موٹر سائیکل کو کِک مارتا ہے اور پھر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے ۔۔۔ جہاں کچھ اور لوگ اپنے کسی پیارے کی تدفین میں مصروف ہوتے ہیں ۔۔۔ اور وہاں جا کر ان کو بھی یہی پیغام دیتا ہے ۔۔۔ ایک اکیلا شخص ، لیکن درحقیقت اپنی ذات میں ایک پورا ادارہ ۔۔۔ کتنا عظیم آدمی ہے ۔۔۔ کیسا عظیم کام کر رہا ہے۔۔۔ !

وہ کون ہے ؟ کیا نام ہے ؟ کیا کرتاہے ؟ کہاں رہتا ہے ؟ کہاں سے آتا ہے ؟ کہاں جاتا ہے ؟ یہ سب میں نہیں جانتا ، نہ ہی کبھی جاننے کی کوشش کی۔۔۔ البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی اپنے کسی مرحوم عزیز کی تدفین میں شرکت کے لئے قبرستان جانا ہوا ، تو کم و بیش ہر مرتبہ ہی اسے وہاں موجود پایا ۔ آپ نے بھی اسے یقیناً دیکھا ہو گا ۔ میں تو اکثر اسے دیکھتا ہوں ۔ کبھی سخی حسن قبرستان میں ، کبھی محمد شاہ قبرستان  میں ، کبھی پاپوش نگر قبرستان میں۔۔۔۔

کل ایک تدفین میں شرکت کے دوران اسے ایک مرتبہ پھر دیکھا تو سوچا کہ اس کی اس کاوش پر اسے تحریری صورت میں خراج تحسین پیش کر دیا جائے۔۔۔ لیکن وہ تو ستائش بے پرواہ معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ پھر خیال آیا کہ چلو اس کا پیغام آگے پہنچا دیا جائے ۔۔۔ کہ یہی اس کی تڑپ ہے ، یہی اس کی تمنا ہے ۔

اے “اجنبی شناسا !” اللہ تم سے راضی ہو جائے ۔ اور  ہمیں قرآنی آیات و احادیث مبارکہ کی بے حرمتی سے بچائے ۔

آمین ۔