Behaviors & Attitudes, Emaan, Eman, Islam, Love your Creator... اللہ سے محبت کیجئے, امر بالمعروف و نہی عن المنکر, اسلام, علم دین

Logic

لاجک

اگرچہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔ پھر بھی ہمارا یہ مزاج ہو چلا ہے کہ احکام شریعت کی لاجک مانگتے ہیں۔ مثلاً مغرب کی تین رکعات کی کیا لاجک ہے؟ یا طلوع و غروب آفتاب کے وقت سجدہ کی ممانعت کی کیا لاجک ہے؟ یا پانی تین سانس میں پینے کی کیا لاجک ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے لئے یہ امر ناکافی ہے کہ بھئی فلاں حکم اللہ جل جلالہ کا حکم ہے یا۔۔۔۔ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح عمل کر کے دکھایا ہے! ہمیں ہر حکم کے پس پردہ لاجک درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دور نبوی ﷺ سے جس قدر دور ہیں ، اس میں ہمارا اس درجہ کرپٹ ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں ہے۔ ایک اور وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہماری سہل پسندی یا یوں کہئے کہ غفلت ہمیں علماء و صلحاء کی محافل میں شرکت کی طرف بھی راغب نہیں ہونے دیتی جہاں تالیف قلب ہوتی رہتی ہے اور ایمان کی بیٹری چارج ہوتی رہتی ہے۔

خیر تو لاجک مانگنے والوں کی خدمت میں بصد ادب ایک تمثیل پیش کی جارہی ہے۔
غور فرمائیے۔

“رات کے نو بجے ہیں۔
آپ نے اولاد سے کہا: چلو جا کر سو جاؤ۔
جواب آیا : وائے ڈیڈ!
ادھر یہ سوال آیا ، ادھر آپ کو غصہ : بی کاز دیٹس مائی آرڈر!
ادھر سے حجت: بٹ ڈیڈ! اٹس جسٹ نائن او کلاک۔ اور کل تو ویسے بھی ویک اینڈ ہے۔
اب آپ غصے سے گرجتے ہیں: نو آرگومنٹس۔ جسٹ گو ٹو بیڈ اینڈ سلیپ۔
اولاد بادل نخواستہ اٹھ کر بیڈروم کی جانب چل دیتی ہے۔ “

کیوں بھئی؟ بچے نے بھی تو لاجک مانگی تھی۔
پھر کیوں غصہ آ گیا آپ کو؟
کیوں ناگوار گزرا؟
کیوں لہجہ درشت ہوا؟
کیونکہ بچے نے حکم دینے والے کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔
کیونکہ بچے نے آگے سے سوال داغ دیا۔
کیونکہ آپ کے خیال میں بچے کے لئے یہ بات کافی ہو جانی چاہئے تھی کہ مما بابا بڑے ہیں، اور یہ مما بابا کا حکم ہے ، لیکن بچے نے اس کو کافی نہ جانا۔

تو جناب! ہمارے لئے بھی مناسب نہیں کہ ہر حکم کی لاجک مانگتے تلاش کرتے پھریں۔ ہمارے لئے یہی بات کافی ہو جانی چاہئے کہ بھئی اللہ کا حکم ہے، یا اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے ۔۔۔ یہی بات کافی ہو جانی چاہئے کہ اللہ بہت بڑا ہے، اور اس نے اپنے رسول ﷺ کو بھی ہمارا بڑا بنایا ہے۔ خلاص۔
اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سعادت مند اولاد وہی ہے جو والدین کے احکامات فوری بجا لاتی ہے۔۔۔
اور وہ بھی خوشی خوشی!

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے!