شمسی صاحب
ان سے ہماری پہلی ملاقات ۲۰۰۴ میں ہوئی جب مسجد سے حج گروپ ترتیب دیا گیا۔ اور وہ بھی اپنی والدہ، بیگم اور بچیوں کے ہمراہ اس گروپ کے عازمین حج میں شامل تھے۔
ہم خود کو بطور خادم الحجاج پیش کر چکے تھے۔ روانگی کا وقت قریب تھا۔ چنانچہ کھانے پکانے کے برتن اور دیگر سامان کی پیکنگ میں مشغول تھے کہ جانے کدھر سے یہ حضرت تشریف لے آئے۔ اور آتے ہی تمام سامان دوبارہ کھلوا دیا کہ پیکنگ یوں نہیں یوں ہو گی۔ ہم نے کچھ پس و پیش سے کام لیا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ چنانچہ ان کے بارے میں ہمارا پہلا تاثر یہ قائم ہوا کہ اپنی مرضی مسلط کرنا حضرت کے مزاج کا حصہ ہے۔
لیکن ساتھ سفر کرنے اور ساتھ کھانا کھانے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ تاثر غلط تھا۔ حضرت چونکہ تبلیغی دورے کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس مناسبت سے سامان کی پیکنگ کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔
یہی نہیں بلکہ کوکنگ بھی خوب آتی تھی۔ سو حج کے دوران وہ ہیڈ کک کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ 60 افراد کے لئے روزانہ دو وقت کا کھانا پکاتے اور ایسا پکاتے کہ حجاج انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ کون سی ڈش تھی جو نہ بنا کے کھلائی۔ قورمہ بریانی نہاری کھا کھا کے حاجی اکتا گئے تو ایک دن کھچڑی بنا ڈالی۔ بازار سے اچار منگوا لیا۔ اور پھر تو کھچڑی کی ایسی لٹ مچی کہ نہ پوچھئے۔ اس کے علاوہ ناشتہ میں انڈے فرائی کرتے اور دو وقت چائے بھی بنایا کرتے تھے۔
عمر میں وہ اگرچہ ہم سے کافی بڑے تھے لیکن بالکل دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ پتہ نہیں ہم میں ایسا کیا دیکھا کہ طواف کو اکثر ہمارے ساتھ ہی جایا کرتے اور یوں طواف کرتے کہ ہماری بائیں بانہہ میں اپنی دائیں بانہہ ڈال دیا کرتے۔ ان کی اہلیہ اور ہماری والدہ کی بھی آپس میں کافی دوستی ہو گئی تھی۔
حج کے دوران گروپ کے تمام حجاج کی قربانی کی ذمہ داری ہم اور ہمارے ایک دوست کے سپرد کی گئی۔ چنانچہ مزدلفہ سے واپسی پر اول وقت میں رمی کر کے ہم قربانی کے لئے مکہ کے مذبح خانے پہنچے۔ قربانی کے لئے جس بندے سے جانور فراہم کرنے کا معاملہ طے ہوا تھا اور اس کے عیوض اچھی خاصی رقم بطور ایڈوانس بھی ادا کر چکے تھے، وہ بندہ غائب ہو گیا۔ پورا دن اس کی تلاش میں نکل گیا۔ ہماری والدہ کی رمی باقی تھی۔ اور ہم اس بارے میں خاصی مضطرب تھے۔ رات گئے منیٰ واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت اپنے گھر والوں کو رمی کے لئے لے گئے تو ہماری والدہ کو بھی ساتھ لے جا کر رمی کرا دی۔
حج سے واپسی کے بعد بھی تعلق برقرار رہا۔ جب ملتے نہایت محبت اور شفقت سے ملتے اور بڑی دیر تک سینے سے چمٹائے رکھتے۔ اور پھر کہتے : سکون مل گیا۔ پھر اطراف کے لوگوں کو ہمارے ہاتھ میں اسی طرح ہاتھ ڈال کر بتاتے کہ ہم اس طرح ساتھ طواف کیا کرتے تھے۔
رائیونڈ اجتماع کے دوران حویلی میں علمائے کرام اور بزرگوں کے لئے کھانا بنانا ان کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ایک بار رائیونڈ جانا ہوا تو ان ہی کی معرفت حویلی میں بھی جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے دسترخوان پر بٹھا لیا۔
خدمت کا بڑا شوق اور جذبہ رکھتے تھے۔ اکثر کہا کرتے: عبادت سے جنت، خدمت سے خدا! (عبادت سے جنت ملتی ہے، خدمت سے خدا ملتا ہے)
یہ تھے ہمارے شمسی صاحب ۔۔۔
محترم طاہر اقبال شمسی صاحب!
آج اچانک ان کے انتقال کی خبر ملی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
پتہ چلا کہ گزشتہ کئی دن سے بیمار تھے اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل تھے۔ کل طبیعت بہت بہتر ہو گئی تھی لیکن پھر رات میں اچانک انتقال ہو گیا۔ ہمیں اطلاع ہی نہ ہوئی کہ حضرت اسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ خدا کرے کہ آخر دم ہماری راہ نہ دیکھی ہو۔۔۔
پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ بڑا بیٹا حافظ و عالم دین اور ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ تینوں بیٹیاں بھی دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ سارا گھرانہ دینی ماحول سے منور ہے۔ کیا خوب سرمایہ کاری کر گئے۔ آج ظہر میں نماز جنازہ تھی۔ ایک خلقت پہنچی ہوئی تھی جو کہ اس بات کہ بین ثبوت تھا کہ حضرت نے دوست بہت بنائے! کتنی ہی آنکھیں اشکبار تھیں۔۔۔
وہ اگرچہ کوئی معروف انسان نہیں تھے لیکن بہت بڑے انسان تھے ۔۔۔ اور بہت اچھے انسان تھے۔ اللہ ان سے راضی ہو جائے۔ غریق رحمت فرمائے۔ آخرت کے مراحل کو آسان فرمائے۔ بغیر حساب کتاب جنت الفردوس میں داخلہ عطا فرمائے۔ آمین۔
حج پر روانگی کے وقت انہوں نے حاجیوں میں پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات رکھنے کے لئے بیگ تقسیم کئے تھے۔ سو ہمیں بھی ایک بیگ ملا تھا جو آج بھی ہمارے پاس ہے اور ان کی نشانی کے طور پر محفوظ رہے گا۔ اس کے علاوہ بے شمار خوشگوار یادیں الگ۔
بیٹے کی وفات پر غمزدہ غالب اردو کو ایک ایسا شعر دے گیا جو کسی بھی نہایت عزیز ہستی کی وفات پر دوہرایا جا سکتا ہے ۔۔۔ سو آج دوہرایا جا رہا ہے۔۔۔
جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟