Emaan, Eman, Hajj Umrah, Islam, Love your Creator... اللہ سے محبت کیجئے, اسلام, حج, علم دین, عمرہ

Takheer

 تاخیر

 جیسے کوئی خواب میں اپنے تکیے کے نیچے نوٹوں کی گڈی رکھی دیکھے۔۔۔ اور آنکھ کھلنے پر تکیے کے نیچے سے واقعی نوٹوں کی گڈی بر آمد ہو جائے۔۔۔ کچھ یہی معاملہ ہوا! نومبر کے آخری ہفتے میں ایک خاندان نے قدم بڑھایا اور ۔۔۔۳ دسمبر کو یہ خاندان بیت اللہ کے سامنے تھا

 واقعہ یہ ہے کہ نومبر کے نصف آخر میں دو خاندانوں نے مل کے عمرہ کی ادائیگی کو جانے کا ارادہ کیا۔ لیکن پھر ایک خاندان کو بوجوہ پیچھے ہٹنا پڑا۔ دوسرا خاندان، جسے گروپ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس میں ایک خاتون اور ان کا بیٹا شامل تھے، بھی ڈانوا ڈول ہونے لگا۔ لیکن !آتش شوق کی چنگاری تو بھڑک چکی تھی ۔۔۔ اب پیچھے ہٹنا کوئی آسان تھا

طے پایا کہ خاتون اور ان کا بیٹا ہی رخت سفر باندھ لیں۔ ادھر خاتون اور ان کے میاں جی کی مشترکہ خالہ نے خاتون کے میاں جی کو “پٹی پڑھانی شروع کی “کہ موقع اچھا ہے تم بھی ہمت کر لو۔۔۔ اور بہر طور راضی کر کے ہی دم لیا۔ چنانچہ قدم بڑھا دیا گیا! شاید رحمت خداوندی انتظار میں تھی۔۔۔ کہ “میاں جی” بھی ارادہ کر لیں تو فائنل اپروول عطا کر کے معاملات آگے بڑھائے جائیں !

 سفری انتظامات کے لئے وقت بہت کم تھا ۔۔۔ پاسپورٹ پہلے سے تیار تھے۔ ایک دوست کی معرفت دسمبر کی ابتدائی تاریخوں میں ہوائی جہاز کی نشستیں فوری بک کرا لی گئیں۔ پھر ایک ٹریول ایجنٹ کے ذریعے ویزہ کے لئے درخواست دی گئی۔ وقت بہت کم تھا۔ ویزے بروقت لگ جانے کے امکانات خاصے کم تھے۔ لیکن ۔۔۔ جب “بلاوا “آ جائے ۔۔۔ تو پھر کون روک سکتا ہے!

سب انتظام ہو گیا۔۔۔ اور مارکیٹ ریٹ سے کم نرخ پر ہو گیا۔ مذکورہ دوست گھر سے پاسپورٹ تصاویر اور دیگر مطلوب دستاویزات لے گیا اور جب پاسپورٹ پر ویزے لگ گئے تو پاسپورٹ ٹکٹ گھر پہنچا گیا۔ سارے کام گھر بیٹھے ہو تے چلے گئے۔ ہوم سروس ! بارگاہ الٰہی میں یوں تو سارے ہی عازمین حج و عمرہ معزز و مکرم ہوا کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ شاید کچھ زیادہ ہی “اسپیشل کیس“تھا۔ سبحان اللہ ! کیسا وی آئی پی ٹریٹمنٹ تھا۔۔۔ کیا سوئفٹ ارینجمنٹ تھا!

 حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے،میں اس کی طرف ایک گز بڑھتا ہوں اور جو شخص میری جانب ایک گز بڑھتا ہے ، میں اس کی طرف دونوں بازو کے پھیلاؤ کے برابر بڑھتا ہوں اور جو میری جانب چل کر آتا ہے میں اس کی جانب دوڑ کے آتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)

 نومبر کے آخری ہفتے میں اس خاندان نے قدم بڑھایا ۔۔۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انسانی آنکھ کو اپنی ذات اطہر کے دیدار کی صلاحیت دی ہوتی تو ۔۔۔ قدم بڑھانے والے دیکھ ہی لیتے کہ اللہ تعالیٰ کیسے دوڑتا ہوا آیا۔۔۔ کیسے بھاگم بھاگ سارے انتظامات کئے۔۔۔ جب ہی تو ۔۔۔ ۳ دسمبر کو یہ خاندان بیت اللہ کے سامنے موجود تھا!

اللہ کو نہ دیکھ سکے ہوں گے ۔۔۔ دیکھ ہی کون سکتا ہے ۔۔۔ کہ چہرے پہ جڑی آنکھوں سے دیکھا جا ہی نہیں سکتا۔۔۔ ہاں اگر دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہو گی ۔۔۔ تو سارا منظر صاف صاف دیکھ ہی لیا ہو گا!۔۔۔ کہ وہی اللہ فرماتا ہے:

(سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ (فصلت۔۵۳)

 ترجمہ: “ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے!”

 اور ۳ دسمبر کو جب یہ خاندان بیت اللہ کے سامنے کھڑا ہوا ہو گا ۔۔۔ تو ممکن ہے کہ ۔۔۔ بیت اللہ کی مقدس اینٹوں۔۔۔ غلاف کعبہ کے متبرک دھاگوں ۔۔۔ مسجد الحرام کے فرش میں جڑی خوش نصیب مرمریں ٹائلوں۔۔۔ حرم مکی کی دیواروں اور ستونوں۔۔۔ برقی قمقموں سے نکلتی روشنی کی کرنوں۔۔۔ آسمان سے جھانکتے چاند ستاروں۔۔۔ سر کے اوپر سے گزرتے بادلوں۔۔۔ پیروں پہ لگی گرد کے ذروں ۔۔۔ دلوں کی بے ترتیب دھڑکنوں ۔۔۔ اور آنکھوں سے بہتے آنسوؤں سے ۔۔۔ اس سوال کی بازگشت سنائی دی ہو ۔۔۔ جو روانگی سے قبل گھر آئے ایک مہمان نے کیا تھاکہ ۔۔۔

 “تاخیر کس کی طرف سے تھی؟”

 ہاں!ساری تاخیر ، ساری ٹال مٹول، سارے بہانے ، ساری تاویلات ہماری ہی طرف سے ہیں۔ وہاں کوئی تاخیر نہیں۔قاعدہ البتہ طے کیا جا چکا ۔۔۔ پہلا قدم بندوں نے بڑھانا ہے۔۔۔ بندوں کو ہی بڑھانا ہو گا۔۔۔ وہاں تو انتظار ہو رہا ہے۔۔۔ اگر کسی کو شک ہے ۔۔۔ تو ایک بار قدم بڑھا کے دیکھ لے ۔۔۔ !

Behaviors & Attitudes, Eman, Hajj Umrah, Islam, Love your Creator... اللہ سے محبت کیجئے, امر بالمعروف و نہی عن المنکر, اسلام, حج, عمرہ

Zan Mureed

زن مرید

پہلی مرتبہ وہ مجھے جمرات پر نظر آئے۔ مناسب قد و قامت کے حامل تھے۔ چہرے پہ سجی سفید داڑھی نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ شخصیت میں کچھ اس بلا کی کشش تھی کہ بندہ دیکھتا ہی چلا جائے۔ بڑے جذبے سے کنکریاں مار رہے تھے۔ ساتھ ساتھ ہچکیوں سے روتے بھی جا رہے تھے۔

سات کنکریاں مار چکے تو پھر سات اور ماریں۔ خیال ہوا کہ شاید کسی اور نے اپنی رمی کرنے کے لئے وکیل بنایا ہو گا۔

پھر قربان گاہ میں بھی انہیں دیکھا تو وہاں بھی یکے بعد دیگرے دو دنبے ذبح کئے۔ ظاہر ہے قربانی کے لئے بھی بہت سے لوگ ذمہ داری لے لیتے ہیں، سو اس میں بھی کوئی غیر معمولی بات نہ لگی۔

اگلے روز طواف زیارت کے لئے حرم پہنچا تو طواف کے آغاز پر وہ پھر نظر آئے۔ میں طواف شروع کر رہا تھا اور وہ طواف مکمل کر کے ہجوم سے باہر نکل رہے تھے۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد پھر انہیں دوبارہ طواف کرتے ہوئے پایا۔ سخت تعجب ہوا کہ اس قدر ہجوم میں ایک ہی طواف کرنا مشکل ہو رہا تھا اور یہ حضرت دوسرا طواف کرنے لگ گئے۔

بعد ازاں صفا مروہ کی سعی کے دوران پھر ان پر نگاہ پڑی ۔ مروہ پر سعی مکمل کر کے میں چپل اٹھانے کی غرض سے صفا پر پہنچا تو انہیں ایک بار پھر سعی کی نیت کرتے اور پھر صفا سے مروہ کی جانب چلتے دیکھا۔

اب تو سخت حیرت ہوئی کہ حضرت ہر عمل دو دو بار کر رہے ہیں۔ خیال ہوا کہ پوچھنا چاہئے لیکن اس قدر ہجوم میں کہاں موقع تھا ان باتوں کا۔ سو اپنی راہ لی۔ لیکن ایک کھٹک سی دل میں برقرار رہی۔

حج کے بعد ایک روز میں ناشتے کا سامان لینے کی غرض سے بقالے کی جانب جا رہا تھا کہ وہ گلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔ سلام دعا کے بعد پتہ چلا کہ قریبی عمارت میں ہی رہائش پزیر ہیں۔

کچھ دیر رسمی باتوں کے بعد میں نے کہا کہ آپ کو حج کے دوران جا بجا دیکھا۔ آپ سے کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے : چلئے میاں! ہمارے کمرے میں آ جائیے۔ ناشتہ ساتھ ہی کرتے ہیں۔

چنانچہ ان کے کمرے میں جا پہنچا۔ کمرے میں دو بستر پڑے تھے۔ اور باقی سامان سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ ناشتے کے دوران کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انہوں نے کہا: میاں پوچھئے کیا پوچھنا چاہ رہے تھےآپ ؟

عرض کی : حضرت ! حج کے ارکان کی ادائیگی کے دوران آپ مجھے جا بجا نظر آئے۔ آپ کو ہر عمل دو دو بار کرتے دیکھا۔ بس یہی بات کھٹک رہی تھی ۔

سوال سن کر وہ ٹھٹک کر رہ گئے۔ پھر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجھے سخت افسوس ہوا کہ ناحق ان کو دکھی کر دیا۔

معذرت کرنے لگا ۔

کہنے لگے: نہیں میاں ! معذرت کیسی؟ بتائے دیتے ہیں آپ کو۔ شاید کچھ دل کا بار کم ہو جائے۔

پھر رومال سے آنکھیں پونچھ کے آہستہ آہستہ بتانے لگے:

میاں کیا بتائیں؟ بیگم کو حج کی شدید آرزو تھی۔ چھ ماہ پہلے کی بات ہے جب حج فارم جمع ہونے کی تاریخوں کا اعلان ہوا تو پیچھے لگ گئی کہ اس بار ہم بھی فارم بھر دیں۔

ہم نے کہا کہ بھئی ابھی وقت مناسب نہیں معلوم ہوتا ۔ بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں۔ رقم پس انداز کرنی شروع کر دینی چاہئے۔ آخر کو ان کی شادیاں کرنی ہیں۔

لگی حدیثیں سنانے۔ کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ حج فرض ہو جانے کے بعد حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاہئے کہ جانے کب کیا رکاوٹ پیش آ جائے۔

پھر دوسری حدیث یہ سنا دی کہ جو حج کی ادائیگی کی قدرت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے تو وہ چاہے یہودی ہو کے مرے یا نصرانی۔

پھر تیسری حدیث کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔

پھر ایک دلیل یہ دی کہ پہلے کوئی کام رکا ہے ہمارا جو آئندہ رکے گا؟ جب جس چیز کی ضرورت پڑی، اللہ نے اپنے فضل سے پوری کر دی۔ آئندہ بھی کر دے گا۔

تو میاں سمجھو یوں حج کا فارم جمع کرا دیا۔ اور پھر یہاں چلے آئے۔

میاں مت پوچھو کہ بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑی تو کیا حالت ہوئی۔ کیسا سرور ملا۔ جھوم کے کہا :بیگم !اس ایک نگاہ میں ہی سارے پیسے وصول ہو گئے۔

عمرہ ادا کیا تو نشاط طاری ہو گیا۔ یہی خیال آتا رہا کہ عمرہ میں اتنی لذت ہے تو حج کیا ہو گا؟ حج کے انتظار کے دنوں میں طواف اور نماز کے لئے بیت اللہ کے چکر لگتے رہے ۔

درمیان میں سرکار ﷺ کے دربار میں حاضری کا موقع بھی ملا۔ روضہ اقدس پہ سلام عرض کرنے کی سعادت ملی۔ احباب و متعلقین کے سلام کی امانت سرکار ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ روز ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کئے۔ کئی مرتبہ جنت البقیع میں مدفون صحابہ و اکابر کی قبور پر فاتحہ خوانی اور بلندی درجات کی دعائیں کیں۔ شہدائے احد کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ مسجد قبا و مسجد قبلتین کی زیارت کی۔ کھجوریں خریدیں۔

دیار نبی ﷺ سے فیض پا کر مکہ لوٹے تو مزید ایک عمرہ کا موقع ملا۔ ہر لمحہ اللہ کی رحمت کا ہالہ اپنے گردا گرد محسوس ہوتا تھا۔ میاں دعائیں تو یوں قبول ہو رہی تھیں گویا رب کعبہ انتظار میں بیٹھا ہو کہ ہمارے منہ سے کوئی سوال نکلے اور وہ پورا کرے۔

اللہ اکبر۔

میاں یقین مانو اسی کا ظرف ہے ورنہ کہاں ہم سا گنہگار کہ حج ایسے فریضے کی ادائیگی کی فکر کرنے کے بجائے ٹال مٹول اور بہانے بازیاں ، اور کہاں اس کا کرم۔ چاہتا تو وہ بھی ہماری دعاؤں کو ٹال دیتا ۔

لیکن نہیں میاں۔۔۔ بلا بھی لیا۔۔۔

اور مان بھی گیا۔

دن یونہی مزے میں گزر رہے تھے۔

حج قریب آتا جا رہا تھا۔

وہ جمعہ کی شام تھی۔

آسمان پر کالے بادل گھر گھر کے آنے لگے ۔

پھر باران رحمت کا نزول ہوا۔

شدید بارش ہوئی۔

ہم اور ہماری بیگم حرم شریف کے بیرونی صحن میں تھے۔ لمحوں میں کپڑے تر بتر ہو گئے ۔ طے ہوا کہ واپس رہائش گاہ پر چلا جائے۔

دو چار قدم چلے تھے کہ ہمیں خیال آیا کہ پانی کے تھرماس میں زم زم ختم ہو چکا ہے۔

بیگم سے ذکر کیا تو جھٹ سے بولی : آپ ٹھہریں ۔ میں بھر کے لاتی ہوں۔ اور پاس ہی موجود زم زم کی ٹنکی کی جانب لپکی۔

ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی ہو گی کہ ایک دھماکہ ہوا اور اوپر سے منوں وزنی کرین آ گری۔ اور بیگم۔۔۔

میاں بس مت پوچھو آن کی آن میں کیا ہو گیا۔۔۔

ان کی آواز بیٹھتی چلی گئی۔

میری بھی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ حادثہ تھا ہی اتنا اندوہناک ۔ ایک لمحہ میں بیسیوں حاجی شہید ہو گئے تھے۔ اور بے شمار زخمی۔ حرم کا مرمریں صحن سرخ ہو گیا تھا۔

تعزیت کرنی چاہی لیکن الفاظ گویا حلق میں پھنس کر رہ گئے۔

کچھ دیر سکوت کے بعد انہوں نے ہی خاموشی توڑی:

میاں!

کیا بتاؤں کتنی خوبیاں تھیں اس میں۔

نہایت صابر و شاکر ۔

وفا شعار ۔

سلیقہ مند۔

اللہ کی رضا میں راضی۔

بھاگ بھاگ کے ہماری خدمتیں کیا کرتی تھی۔

ہماری مرضی پہ اپنی مرضی کو قربان کر دیا۔

اپنی پسند نا پسند کو ہماری پسند نا پسند کے مطابق ڈھال لیا۔

ہر خوشی غمی میں ہمارے شانہ بشانہ۔

میاں وہ کہتی تھی کہ عورت کا مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا اصل اور پسندیدہ طریقہ یہی ہے۔

میاں ! نکاح میں قبول ہے کہا نا ۔۔۔ تو پھر ہر طرح سے ہمیں قبول کر کے دکھایا۔ ہماری جھڑکیاں اور نخرے برداشت کئے۔ کبھی شکوہ نہ کیا۔ وقت بے وقت کی فرمائشیں پوری کیں۔

سفر حج کے سامان کی پیکنگ کے وقت ہماری ضرورت کی تمام اشیاء خود ہی جمع کر کے رکھیں۔

کپڑوں سے لے کر سیفٹی پن تک۔۔۔

اور عینک سے لے کر دواؤں تک۔۔۔

ہر چیز کی موجودگی کو یقینی بنایا۔

تربیتی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کا اہتمام کیا۔

اور یہاں آ کے تو وہ گویا بچھی ہی چلی جا رہی تھی۔ہل کے پانی تک نہ پینے دیتی تھی ہمیں۔ حرم میں حاضری کے بعد تھک کر واپس آتے تو خود باوجود تھکان کے ہمارے پیر دبانے لگ جاتی۔

ہم روکتے تو کہتی کہ پہلے تو آپ صرف شوہر تھے، اب تو اللہ کے مہمان بھی ہیں۔ اللہ کے مہمان کی خدمت کرنے دیجئے۔

کبھی کبھی احساس تشکر سے بھیگی آنکھیں لئے ہمارے ہاتھ پکڑ کر کہتی کہ آپ نے مجھے اللہ کا گھر دکھا دیا۔ حالانکہ میاں درحقیقت وہ ہمیں لے کر آئی تھی۔

ہاہ ! وہ صرف ہماری دنیا ہی کے نہیں، آخرت کے بارے میں بھی فکر مند رہا کرتی تھی۔

میاں اللہ والی تھی ۔۔۔

بڑی اللہ والی۔

شاید جبھی اللہ نے اسے پاک صاف کر کے اپنے پاس بلا لیا۔

شہادت کی موت عطا فرما دی۔

سیدہ خدیجہؓ کے قدموں میں جگہ عطا فرما دی۔

کیسے بلند درجات پا لئے۔

بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ جب بچوں کو اس کی شہادت کی اطلاع دی تو وہ الٹا ہمیں ہی صبر کی تلقین کرنے لگے۔

میاں سچ فرمایا سرکار ﷺ نے کہ دنیا کی بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔

اس نیک بخت نے خدمتیں کر کر کے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔

میاں حج پر ہر ہر رکن کی ادائیگی کے دوران اس کی کمی محسوس ہوئی۔۔۔

سو اس کی طرف سے بھی

رمی،

قربانی،

طواف زیارت

اور سعی کر دی ۔۔۔

بس یونہی اپنے دل کے بہلاوے کو۔۔۔

کہ ہم نے قدم قدم پر خود کو اس کی محبتوں اور وفاؤں کا مقروض پایا۔

میاں!ہمارے تمام متعلقین ہمیں زن مرید کہتے ہیں۔

چاہو تو تم بھی کہہ لو!

Join our Facebook Page

https://www.facebook.com/profile.php?id=100010437041297

Behaviors & Attitudes, Hajj Umrah, Islam, علم دین

Sarkar ka jalwa hy, tamasha nahi koi

سرکار کا جلوہ ہے تماشہ نہیں کوئی

زیارت حرمین شریفین ہر دور میں ہی مسلمانوں  کی سب سے بڑی آرزو رہی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ حج عمرہ کو جاتے تھے تو اس حال میں کہ گناہوں پر شرمسار اور نادم ہوا کرتے تھے ۔ قدم قدم پر آنسو بہا رہے ہوتے تھے ۔ اللہ کے گھر جاتے تو سجدوں سے وہاں کے چپے چپے کو سجا دیتے ۔ ان کا گریہ آسمان کو رلا دیتا ۔ ان کی پکار عرش کو ہلا دیتی۔ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضری کو جاتے ہوئے دربار نبوی ﷺ کے آداب کے تصور سے ہی ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ۔ یہ بارگاہِ نبوی ﷺ میں جاتے تو اس خیال سے کہ پیارےآقا ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا، چہرہ کپڑے سے چھپا کر جاتے۔آواز بلند ہونا تو دور کی بات ، نگاہ تک بلند نہ ہوا کرتی ۔ حد درجہ مؤوب و محتاط۔ نتیجتاً ان کی مرادیں فوری بر آتیں۔ ان کو قبولیت کی سند نقد عطا ہو جایا کرتی ۔اور پھر یہ حرمین شریفین کے روح پرور مناظر کی تصاویر اپنے ذہن و دل میں محفوظ کئے گھروں کو واپس لوٹ آتے۔ جانے والوں کو دیکھ کر رہ جانے والے ان کے مقدر پر رشک کرتے  …اور جانے والے جب لوٹ کر آتے تو ان کے منتظر احباب ان کے گرد پروانہ وار جمع ہو کر ان سے وہاں کے قصے سنتے اور اپنی آنکھیں بھگوتے!

پھر وقت نے کروٹ بدلی اور تصور کی جگہ تصویر نے لے لی۔ ہاتھوں میں تسبیح کی جگہ موبائل فون اور کیمرے آ گئے۔اور حرمین شریفین سریلی گھنٹیوں ، حتیٰ کہ رومان پرور نغموں … جی ہاں رومان پرور نغموں سے گونجنے لگے ۔کیمرے کی آنکھ انسانی آنکھ سے زیادہ پیاسی ہو گئی ۔ الا ما شاء اللہ ہر فرد “پاپا رازی ” بننے پر کمربستہ ہو گیا۔ بس ہر منظر کیمرے میں محفوظ کر لیا جائے “تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے “۔ سارا وقت اسی فکر میں مبتلا کہ اس جگہ کی تصویر بنا لی جائے، اس مقام کی ویڈیو بنا لی جائے۔ حد تو یہ کہ طواف کر رہے تو منظر کشی میں مصروف …اور بارگاہ نبوی ﷺ میں سلام عرض کرنے کو جا رہے تو ویڈیو بنانے میں مصروف ۔ طواف بیت اللہ کے وقت جسمانی حالت و قلبی کیفیت کیا ہونی چاہئے تھی؟ توجہ کہاں ہونی چاہئے تھی؟ سب ایک طرف رکھ دیا۔ چلئے جناب آپ جانئے اور رب کعبہ! لیکن …وہ دربار رسالت ﷺ جس کے آداب کی بابت رب کعبہ نے قرآن اتار دیا اور کوتاہی پر سب نیک اعمال (اگر کچھ ہیں تو وہ بھی ) برباد ہونے کی وعید سنا دی ، اس دربار میں کس قدر محتاط رہنا چاہئے!

اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الحجرات آیت نمبر دو میں فرمایا:

voice

اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔

اس آیت میں بظاہر تو صرف آواز پست کرنے کا حکم ہے ، تاہم اگر اس آیت کی تفسیر کا جائزہ لیا جائے تو بات کی گئی ہے حضور ﷺ سے محبت کی ،آپ ﷺ کی تعظیم و احترام کی ، آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع  کی ، آپ ﷺ کی ذات مبارک سے مکمل قلبی و جذباتی وابستگی کی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کے روبرو مؤدب ہو جاؤ۔ اگر خدانخواستہ حضور ﷺ کی تعظیم اور احترام میں کسی بھی پہلو سے کوئی فرو گذاشت ہو گئی اگرچہ لا علمی میں ہی ہوئی ہو (اور ظاہر ہے کہ جانتے بوجھتے تو کوئی مسلمان سے ایسے کسی عمل کا تصور بھی نہیں کر سکتا ) تو سب کیا کرایا برباد ہو جانے کی وعید ہے ۔

اسی ادب و تعظیم کو چند شعراء نے اپنے اشعار میں یوں بیان کیا :

؎ نظروں کو جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاؤ

بےتاب نگاہی بھی یہاں بے ادبی ہے

؎            اے ظرف نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے

سرکار کا جلوہ ہے تماشہ نہیں کوئی

روضہ مبارک پر حاضری کے وقت اسی طرح فوٹوگرافی میں مشغول ایک صاحب کی خدمت میں مذکورہ بالا اشعار پیش کئے تو بولےکہ “شاعر کا قول ہے ، کوئی حدیث تھوڑی ہے “۔ درست فرمایا۔ چلیئے بھائی آپ کوئی حدیث لا دیجئے کہ جس میں دربار رسالت ﷺ میں حاضری کے وقت فوٹوگرافی کی “اس قدر تاکید “آئی ہو؟

ابھی گزشتہ دنوں ایک سعودی ٹی وی چینل، جو کہ مسجد نبوی ﷺ کے مناظر براہ راست نشر کرتا ہے ، پر یہ منظر دیکھا کہ سنہری جالیوں کے روبرو بیشتر افراد موبائل اور ڈیجیٹل کیمروں کے ذریعے تصاویر اور مووی بنانے میں مصروف تھے۔ اور ایک منچلے نے تو  موبائل سے اپنی سیلفی selfie  (سیلف پورٹریٹ) بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔خود ہی بتائیے کیا یہی تقاضے ہیں اس دربار عالی میں حاضری کے ؟

ایک حدیث میں آیا ہے کہ کہ قیامت کے قریب میری امت کے امیر لوگ تو حج محض سیرو تفریح کے ارادہ سے کریں گے ۔۔۔ اور میری امت کا متوسط طبقہ تجارت کی غرض سے حج کرے گا۔۔۔ اور علماءریاوشہرت کی وجہ سے حج کریں گے ۔۔۔اور غربا بھیک مانگنے کی غرض سے جائیں گے۔  (کنزالعمال)

غور فرمائیے! حجاج کے جن چار طبقات کا ذکر کیا گیا ہے کیا وہ چاروں ہی آج نظر نہیں آ رہے؟ خاص کر اول الذکر طبقہ … کہ جیسے لندن پیرس کی سیر و تفریح کے دوران فوٹوگرافی میں مصروف ، ایسے ہی حرمین شریفین کی حاضری کے دوران فوٹوگرافی میں مصروف۔ سیر و تفریح کے انداز میں حج و عمرہ ادا کرنے والے گروہ کو قرب قیامت کی نشانی بتایا گیا تو کیا احتیاط لازم نہیں؟ کم سے کم طواف بیت اللہ کے دوران اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے وقت تو فوٹو گرافی سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ یوں بھی ہر ہر مقام کی بلا مبالغہ ہزارہا تصاویر پہلے ہی موجود ہیں۔